Skip to content
مستی حال کبھی تھی کہ نہ تھی بھول گئے
یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی بھول گئے
یوں مجھے بھیج کے تنہا سر بازار فریب
کیا میرے دوست میری سادہ دلی بھول گئے
میں تو بے حس ہوں مجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں روش چارہ گری بھول گئے؟
اب میرے اشک محبت بھی نہیں آپ کو یاد
آپ تو اپنے ہی دامن کی نمی بھول گئے
اب مجھے کوئی دلائے نہ محبت کا یقیں
جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وہی بھول گئے
اور کیا چاہتی ہے گردش ایام کہ ہم
اپنا گھر بھول گئے ان کی گلی بھول گئے
کیا کہیں کتنی ہی باتیں تھیں جو اب یاد نہیں
کیا کریں ہم سے بڑی بھول ہوئی بھول گئے