مستی میں فروغ رخ جاناں نہیں دیکھا سنتے ہیں بہار آئی گلستاں نہیں دیکھا زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا آئے تھے سبھی طرح کے جلوے مرے آگے میں نے مگر اے دیدہ حیراں نہیں دیکھا اس طرح زمانہ کبھی ہوتا نہ پر آشوب فتنوں نے ترا گوشہ داماں نہیں دیکھا ہر حال میں بس پیش نظر ہے وہی صورت میں نے کبھی روئے شب ہجراں نہیں دیکھا کچھ دعوی تمکیں میں ہے معذور بھی زاہد مستی میں تجھے چاک گریباں نہیں دیکھا روداد چمن سنتا ہوں اس طرح قفس میں جیسے کبھی آنکھوں سے گلستاں نہیں دیکھا مجھ خستہ و مہجور کی آنکھیں ہیں ترستی کب سے تجھے اے سرو خراماں نہیں دیکھا کیا کیا ہوا ہنگامہ جنون یہ نہیں معلوم کچھ ہوش جو آیا تو گریباں نہیں دیکھا شائستہ صحبت کوئی ان میں نہیں اصغرؔ کافر نہیں دیکھے کہ مسلماں نہیں دیکھا
اصغر گونڈوی