روشنی کا استعارہ کر لیا
دل نے ہر آنسو ستارہ کر لیا
ایک بہت بڑے فریم میں اباجی کی ایک بڑے سائز کی تصویر لگا کے میں نے فریم کو اپنے ڈرائینگ روم میں آویزاں کر رکھا ہے۔گھر کے باقی کمروں میں بھی ان کی چھوٹی چھوٹی تصویریں سجا رکھی ہیں اور یہ ساری تصویریں میرے من میں بھی لگی ہوئی ہیں۔ گو انہیں فوت ہوئے ایک زمانہ ہو گیا ہے لیکن ان تصویروں کے باعث مجھے گھر میں ان کی موجودگی کا گمان رہتا ہے۔ ڈرائینگ روم والی بڑی تصویر اس لحاظ سے باقی ساری تصویروں سے الگ ہے کہ اس میں اباجی کے چہرے پرولیوں جیسی شان بےحد نمایاں ہے۔ میک اپ کر کے اپنے چہرے پر نور ظاہر کرنے والے نام نہاد مقدس لیڈروں سے مختلف، اپنے اندر کی روشنی سے منور اباجی کا چہرہ اور پھر اس چہرے میں دو جگمگاتی آنکھیں۔ ان جگمگاتی آنکھوں میں عجیب اسرار ہیں۔ میں کبھی کوئی بہت اچھا اور نیکی کا کام کرتا ہوں تو اباجی کی آنکھوں میں خوشی کی چمک دکھائی دیتی ہے۔ میں سب سے بچ بچاکر اور چھپ چھپا کر بھی کوئی براکام کر بیٹھوں تو اباجی کی آنکھوں سے برہمی بلکہ تادیب کی لو بھڑکتی محسوس ہوتی ہے۔
کسی نے مجھ سے زیادتی کی۔۔۔ میں نے اس سے برابر بدلہ لے لیا۔ اباجی کی آنکھوں کی اداسی جیسے بولنے لگتی ہے۔ اس نے تمہیں دکھ پہنچایا، برا کیا۔ تم نے فوراً بدلہ لے لیا۔ کیا مل گیا بدلہ لے کر؟ کبھی دکھ کو سہہ جانے کا مزہ بھی چکھ کر دیکھو!
بعض بھائیوں نے میرے ساتھ ہاتھ کیا، میں نے انہیں سبق سکھانا چاہا تو اباجی کی دکھ سے بھری آنکھیں مجھے نصیحت کرنے لگیں، تم سارے بھائی میرے ہی وجود کی شناخت ہو۔ وہ چھوٹے ہیں، نادان ہیں۔ انہیں نقصان پہنچاؤ گے تو وہ بھی تمہارا نقصان ہوگا۔ تم جیتو یا ہارو، دونوں صورتوں میں خود ہی ہارو گے اور مجھے ہی ہراؤگے۔
کبھی کبھی تو ایسے لگتا ہے جیسے میں ٹین ایج میں ہوں اور اباجی ہمہ وقت جا، بےجا مداخلت کرکے مجھے اپنے بنائے ہوئے سیدھے رستے پر چلائے رکھنا چاہتے ہیں اور کبھی ایسا لگتا ہے کہ فریم میں اباجی کی تصویر نہیں، ایک آئینہ ہے۔ میں اس کے روبرو ہوتا ہوں تو گویا اپنے روبرو ہوتا ہوں۔ مجھ پر میرے اندر سے اچھائی اور برائی کا فرق منکشف ہونے لگتا ہے۔ نیکی اور خیر کی تحریک ملنے لگتی ہے۔
ایک بار میں نے اپنے تینوں بیٹوں کی اباجی کے ساتھ تصویر کھینچی تھی۔ ٹیپو، اباجی کی گود میں تھا اور زلفی، شازی ان کے دائی بائیں مدت کے بعد اس تصویر کو دیکھا۔ میں تصویر میں موجود نہیں تھا لیکن میں نے ہی تو تصویر کھینچی تھی۔ سو اس تصویر میں اپنی موجودگی، اپنی شرکت کا احساس جاگا۔ اپنے تینوں بیٹوں اور اباجی کی گروپ تصویر کو دیکھ کر میں جیسے درجہ شہودمیں داخل ہو گیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میرے وجود میں میرے ماضی، حال اور مستقبل کے تینوں زمانے یک جا ہو گئے ہیں۔ سارا زمانہ ایک نقطے میں ڈھل گیا ہے۔ شاہد و مشہود کی تفریق ختم ہو گئی ہے۔ لیکن اگر واقعی ایسا ہے تو پھر اباجی مجھے روکتے، ٹوکتے کیوں رہتے ہیں؟ جب ہی نقطہ زماں پھیلنے لگا اور میں اپنے لڑکپن سے جوانی کے دور میں داخل ہونے لگا۔ ہر نصیحت سے غافل اور بیگانہ خواہشات کا اژدہام تھا اور میں تھا۔ میں منزلوں پر منزلیں مار رہا تھا۔ خواہشات کی نوعیت بدلتی گئی، عمر ڈھلتی گئی لیکن خواہشیں جہنم کی طرح ھل من مزید پکارتی رہیں۔ بےشک انسان حریص ہے کہ اسے سونے کا پہاڑ مل جائے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرنے کی بجائے ویسے ہی ایک اور پہاڑ کی خواہش کرنے لگےگا اور پھر میں اپنے گوتم کے پاس آ گیا۔ خواہشوں کے جہنم سے نکل آنے کے بعد اباجی سے ملاقات ہوئی۔ ان کی آنکھوں میں بیک وقت خفگی اور خوشی کا تاثر تھا:
’’خواہش پوری ہونے پر تسکین نہیں ہوتی بلکہ حرص کاروپ دھار لیتی ہے۔ جتنی خواہشیں پوری ہوتی جاتی ہیں اتنا ہی حرص بڑھتا جاتا ہے۔ یہ پیاس اور یہ آگ کبھی بھی نہیں بجھتی۔ خواہشیں بے انت سراب کی ٹھاٹھیں مارتی لہریں ہیں!‘‘
’’اباجی! میں جوگی نہیں ہوں۔ صوفی اور تیاگی نہیں ہوں۔ ان سب کی جی جان سے عزت کرتاہوں لیکن ان جیسا بننا نہیں چاہتا، میں آپ جیسا ہی بننا چاہتا ہوں۔ زندگی کو بھوگتے ہوئے اپنی ریاضت، اپنی تپسیا مکمل کرنا چاہتا ہوں لیکن آپ کے برعکس میری خواہشیں، حرص میں ڈھلنے لگتی ہیں اور میری ساری ریاضت برباد ہوجاتی ہے، ساری تپسیا بھنگ ہو جاتی ہے۔اور اباجی! آپ نے مجھے کبھی قناعت کا درس بھی تو نہیں دیا تھا۔ شاید اسی لیے خواہشوں کو مکمل طور پر تیاگ دینا میرے لیے ممکن نہیں ہے‘‘۔
یہاں تک بات کرتے کرتے میری آنکھوں کا پانی پلکوں تک آ گیا تھا۔ پلکوں میں اٹکے ہوئے آنسوؤں نے سارا منظر دھند میں لپیٹ دیا تھا۔ لیکن یہ کیا؟
دراصل ہمارے اندر کی دنیا میں جو کچھ بھی وقوع پذیر ہوتا ہے وہ اندر ہی اندر ہوتا ہے۔ باہر کی، ظاہر کی دنیا سے یہ سب کچھ الگ تھلگ ہوتا ہے۔ اپنے اندر کی دنیا میں مگن رہنے کے باوجود میں اندر اور باہر کی دنیاؤں کے اس فرق کو بخوبی سمجھتا ہوں۔ اباجی کی تصویر سے میرے تعلق کی نوعیت بھی حقیقتاً داخلی تھی۔ ظاہر کی دنیا کے حساب سے تو شاید ایسا کچھ بھی نہیں تھا لیکن میں نیخ ڈبڈبائی آنکھوں سے بھی پوری طرح دیکھا تھا کہ اباجی سچ مچ تصویر کے فریم سے باہر نکلے اور صوفے پر آکر میرے ساتھ بیٹھ گئے۔ انہوں نے بڑی شفقت کے ساتھ اپنی پگڑی کی لڑ سے میرے آنسو صاف کئے۔ لیکن آنسو تو امڈتے ہی چلے آتے تھے۔ جیسے سیلاب بن کر خواہشوں کے اژدہام کو بہا لے جانا چاہتے تھے۔ تب اباجی نے بیٹھے ہی بیٹھے مجھے اپنی بانہوں میں بھر کر بھینچ لیا۔ شاید وہ بول نہیں سکتے تھے اوراسی طرح مجھے دلاسہ دے رہے تھے۔ پگڑی کی لڑ سے میرے آنسو صاف کئے جانے اور اباجی کا مجھے خود سے لپٹانے کا میرا تجربہ خیالی یا روحانی قطعاً نہیں تھا۔ یہ مکمل طور پر جسمانی اور ظاہری وقوعہ تھا۔
میں نے آنکھوں کو اچھی طرح صاف کیا اور آنسوؤں کی دھند کو ہٹا کر دیکھا تو حیران رہ گیا۔ میرے تینو بیٹے میرے پاس تھے۔ ٹیپو نے مجھے بانہوں میں بھینچ رکھا تھا۔ شازی میرا کندھا دبا رہا تھا، سامنے زلفی کھڑا تھا اور اس کے ہاتھوں میں بھیگا ہوا رومال تھا۔
’’اباجی! آپ ٹھیک تو ہیں؟ آپ کو بیٹھے بیٹھے کچھ ہو گیا تھا۔ کیا ڈاکٹر کو بلا لیں؟‘‘
پتہ نہیں تینوں بیٹوں میں سے کون بول رہا تھا۔
مجھے ایسے لگا جیسے اباجی کے ساتھ میرے داداجی اور پردادا جی بھی میری عیادت کے لیے آئے ہوئے ہیں اور میرے پوتے اور پڑپوتے بھی میرے ارد گرد بیٹھے ہوئے ہیں۔ زمان کو پھر ایک نقطے میں سمٹتے دیکھ کر مرے ہونٹوں پر مسکراہٹ سی آ گئی۔ میں نے سامنے ٹنگی ہوئی اباجی کی تصویر کی طرف دیکھا تو ان کے ہونٹوں پر بھی مجھے اپنے جیسی مسکراہٹ دکھائی دی۔ جلتی بجھتی، چمکتی مسکراہٹ۔
پتہ نہیں اباجی کی تصویر کے ہونٹوں پر میری مسکراہٹ کاعکس تھا یا میرے ہونٹوں پر اباجی کی مسکراہٹ کا عکس تھا۔
حیدر قریشی