Iztirab

Iztirab

مضحکہ آؤ اڑائیں عشق بے بنیاد کا

مضحکہ آؤ اڑائیں عشق بے بنیاد کا 
اک جدا مدفن بنائیں تیشۂ فرہاد کا 
واہ واہ کیا رنگ بدلا گلشن ایجاد کا 
سایۂ گل پر گماں ہونے لگا صیاد کا 
بہہ چلا ہے اشک حسرت المدد اے برق یاس 
یہ بھی اک دانہ ہے میرے خرمن برباد کا 
کس نگاہ گرم سے دیکھا ہے اس نے وقت قتل 
آہ ٹھنڈی پڑ گئی دم گھٹ گیا فریاد کا 
غنچہ غنچہ خوف سے مجھ کو نظر آیا قفس 
پتے پتے پر ہوا دھوکا کف صیاد کا 
یہ سمجھ لیجے کسی شاعر کے دل کا ٹوٹنا 
ٹوٹ جانا ہے طلسم عالم ایجاد کا 
ہو نہ احساس اسیری تو رہائی ہے محال 
ایسے قیدی نام تک لیتے نہیں میعاد کا 
ضعف کی یہ ہمتیں ہیں ناتوانی کا یہ زور 
ٹکڑے ٹکڑے کر دیا دامن مری فریاد کا 
اس سخنور سے مجھے فیض سخن ہے اے حفیظؔ 
نام نامی ہے گرامی جس جہاں استاد کا 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *