منہ پہ رکھتا ہے وہ نقاب بہت ہم سے کرتا ہے اب حجاب بہت چشمک گل کا لطف بھی نہ اٹھا کم رہا موسم شباب بہت دیر بھی کچھ لگی نہ مرتے ہمیں عمر جاتی رہی شتاب بہت ڈھونڈتے اس کو کوچے کوچے پھرے دل نے ہم کو کیا خراب بہت چلنا اپنا قریب ہے شاید جاں کرے ہے اب اضطراب بہت توبہ مے سے بہار میں نہ کروں گو کرے شیخ احتساب بہت اس غصیلے سے کیا کسو کی نبھے مہربانی ہے کم عتاب بہت کشتن مردماں اگر ہے ثواب تو ہوا ہے اسے ثواب بہت دیر تک کعبے میں تھے شب بے ہوش پی گئے میرؔ جی شراب بہت