Iztirab

Iztirab

مٹنے والی حسرتیں ایجاد کر لیتا ہوں میں

مٹنے والی حسرتیں ایجاد کر لیتا ہوں میں 
جب بھی چاہوں اک جہاں آباد کر لیتا ہوں میں 
مجھ کو ان مجبوریوں پر بھی ہے اتنا اختیار 
آہ بھر لیتا ہوں میں فریاد کر لیتا ہوں میں 
حسن بے چارہ تو ہو جاتا ہے اکثر مہرباں 
پھر اسے آمادۂ بیداد کر لیتا ہوں میں 
تو نہیں کہتا مگر دیکھ او وفا نا آشنا 
اپنی ہستی کس قدر برباد کر لیتا ہوں میں 
ہاں یہ ویرانہ یہ دل یہ آرزوؤں کا مزار 
تم کہو تو پھر اسے آباد کر لیتا ہوں میں 
جب کوئی تازہ مصیبت ٹوٹتی ہے اے حفیظؔ 
ایک عادت ہے خدا کو یاد کر لیتا ہوں میں 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *