مکے گیا مدینے گیا کربلا گیا
جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آ گیا
دیکھا ہو کچھ اس آمد و شد میں تو میں کہوں
خود گم ہوا ہوں بات کی تہہ اب جو پا گیا
کپڑے گلے کے میرے نہ ہوں آب دیدہ کیوں
مانند ابر دیدۂ تر اب تو چھا گیا
جاں سوز آہ و نالہ سمجھتا نہیں ہوں میں
یک شعلہ میرے دل سے اٹھا تھا جلا گیا
جور سپہر دوں سے برا حال تھا بہت
میں شرم ناکسی سے زمیں میں سما گیا
وہ مجھ سے بھاگتا ہی پھرا کبر و ناز سے
جوں جوں نیاز کر کے میں اس سے لگا گیا
بیٹھا تو بوریے کے تئیں سر پہ رکھ کے میرؔ
صف کس ادب سے ہم فقرا کی اٹھا گیا
دیکھا جو راہ جاتے تبختر کے ساتھ اسے
پھر مجھ شکستہ پا سے نہ اک دم رہا گیا
میر تقی میر