میں اس سے پہلے کہ بکھروں ادھر ادھر ہو جاؤں
مجھے سنبھال لے ممکن ہے در بدر ہو جاؤں
یہ آب و تاب جو مجھ میں ہے سب اسی سے ہے
اگر وہ چھوڑ دے مجھ کو تو میں کھنڈر ہو جاؤں
مری مدد سے کھجوروں کی فصل پکنے لگے
میں چاہتا ہوں کہ صحرا کی دوپہر ہو جاؤں
میں آس پاس کے موسم سے ہوں تر و تازہ
میں اپنے جھنڈ سے نکلوں تو بے ثمر ہو جاؤں
بڑی عجیب سی حدت ہے اس کی یادوں میں
اگر میں چھو لوں پسینے سے تر بہ تر ہو جاؤں
میں کچی مٹی کی صورت ہوں تیرے ہاتھوں میں
مجھے تو ڈھال دے ایسے کہ معتبر ہو جاؤں
بچی کھچی ہوئی سانسوں کے ساتھ پہنچانا
سنو ہواؤ اگر میں شکستہ پر ہو جاؤں
منور رانا