میں اک اسرار تھا کوئی بھی نہ سمجھا مجھ کو دیکھنے کو تو ہر اک آنکھ نے دیکھا مجھ کو یوں تو جینے کو جئے جاتا ہوں اک مدت سے کیسے جینا ہے یہ ڈھب پھر بھی نہ آیا مجھ کو میں مسیحا کی طرح حق کا پرستار نہ تھا جانے کیوں لوگوں نے پھر دار پہ کھینچا مجھ کو موت آئی کہ غم زیست کے صحراؤں میں مل گیا ایک گھنے پیڑ کا سایہ مجھ کو گردش وقت نے آنکھوں کو جلا بخشی ہے ورنہ یہ چہرے بھلا کون دکھاتا مجھ کو نام زاہدؔ ہے طبیعت ہے مگر رندانہ نام بدلا نہ طبیعت نے ہی چھوڑا مجھ کو