میں رہا عمر بھر یہیں کا رہا میں کناروں پہ بھی زمیں کا رہا لے گیا وقت تیرا نقش کہاں جو کہیں تھا نہ پھر کہیں کا رہا میرے آنگن میں اک کلی نہ ملی کوئی قصہ نہ نازنیں کا رہا تھا یہ تحفہ اگرچہ میرے لیے تیرا خنجر تو آستیں کا رہا تیرا انکار خاموشی سے ہوا بہت اصرار پھر نہیں کا رہا وہ جو ٹھہرے کہیں وہیں نہ رہے میرا عامرؔ کہاں کہیں کا رہا