اور اب میری مونچھیں پرانے سوئیٹر کی ادھڑی ہوئی سفید اون
پیلے کاغذ میں رکھی سیہ فلم اور تھوک ڈبیا میں بند
تیری ماں کے گھنے بال
جنہیں چومتے چومتے میں نے راتیں تری سوچ میں
آئنوں جیسے برآمدوں کی منقط سفیدی پہ مل دیں
جہاں بین منڈلا رہے تھے
جہاں قہر کی صبح آتے ہی سارے سیٹتھوسکوپ
سانپ بن جائیں گے
اور بد اطوار نرسوں کی آنکھوں کے سوراخ
کیڑے مکوڑوں کی آماج گاہ
مرے ناتواں دوش پر شال
اور تو شمشاد قد آہنی جسم سینے میں
اجداد کا علم موجوں کا شور
دبا کر مرے کندھے اور ماں کے پیر
ماتھے کا بوسہ کہ جنت کے پھولوں کا رس
کچھ رقم دے کے بوڑھے محافظ کو میں نے کہا تھا کہ یہ گھاس تو
صاف کر دو
کہیں قبر ننھی سی چھپ ہی نہ جائے
محمد اظہار الحق