نادار کے سینے پہ لگا تیر غلط ہے
بے کس پہ جو اٹھتی ہے وہ شمشیر غلط ہے
کہنے کو بہت کچھ ہے تو کہہ کیوں نہیں دیتے
جذبات کے اظہار میں تاخیر غلط ہے
پرواز کی خواہش سے نوازا ہے جب اس کو
پھر فکر کے پیروں میں یہ زنجیر غلط ہے
جس نے تمہیں دشمن ہی بنا ڈالا وطن کا
اب کہتے ہو اس خواب کی تعبیر غلط ہے
وہ جب سے بنائی تھی کیا اس کا بھروسا
خود مانا مصور نے کہ تصویر غلط ہے
خوش کرتے ہو کچھ لوگوں کو اپنوں کو ستا کر
یوں قصر سیاست کی ہو تعمیر غلط ہے
زاہدؔ جو پلائی گئی بیمار وطن کو
تاثیر سے لگتا ہے کہ اکسیر غلط ہے
زاہد ابرول