ناروا ثبت کیا کن کا اشارہ کر کے دیکھنا ہے یہ تماشا بھی دوبارہ کر کے حق پسندی نے کہاں چین دلوں کو بخشا لوگ امید پہ آئے تھے سہارا کر کے مصلحت پا کے مؤرخ نے کیا دفن اسے لوگ خوش تھے انہیں یادوں پہ گزارا کر کے چند تاجر ہیں کچھ عاشق ہیں اور اک دو شاعر دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے اک لقب دے کے اسے نام و نشاں چھین لیا عشق کا قیس نے یہ نقش ابھارا کر کے کب لکھے سے ہی ہوا کوئی کسی کا عامرؔ آپ خود کے بھی ہوئے خود کو گوارہ کر کے