نمک ان آنسوؤں میں کم نہ تھا پر نم بہت اچھا گھروں میں دانۂ گندم نہ تھا ماتم بہت تھا مری آنکھوں پہ بھی زرتار پردے جھولتے تھے ترے بالوں میں بھی کچھ ان دنوں ریشم بہت تھا مزے سارے تماشا گاہ دنیا میں اٹھائے مگر اک بات جو دل میں تھی جس کا غم بہت تھا سیاہی رات کی پیچھے سمندر دن کا آگے ستارہ صبح کا میری طرح مدھم بہت تھا بدلتے جا رہے تھے جسم اپنی ہیئتیں بھی کہ رستہ تنگ تھا اور یوں کہ اس میں خم بہت تھا