نوحہ گروں میں دیدۂ تر بھی اسی کا تھا
مجھ پر یہ ظلم بار دگر بھی اسی کا تھا
دیکھا مجھے تو ترک تعلق کے باوجود
وہ مسکرا دیا یہ ہنر بھی اسی کا تھا
آنکھیں کشاد و بست سے بدنام ہو گئیں
سورج اسی کا خواب سحر بھی اسی کا تھا
خنجر در آستیں ہی ملا جب کبھی ملا
وہ تیغ کھینچتا تو یہ سر بھی اسی کا تھا
نشتر چبھے ہوئے تھے رگ جاں کے آس پاس
وہ چارہ گر تھا اور مجھے ڈر بھی اسی کا تھا
محفل میں کل فرازؔ ہی شاید تھا لب کشا
مقتل میں آج کاسۂ سر بھی اسی کا تھا