نوحہ گر چپ ہیں کہ روئیں بھی تو کس کو روئیں کوئی اس فصل ہلاکت میں سلامت بھی تو ہو کون سا دل ہے کہ جس کے لئے آنکھیں کھولیں کوئی بسمل کسی شب خوں کی علامت بھی تو ہو شکر کی جا ہے کہ بے نام و نسب کے چہرے مسندِ عدل کی بخشش کے سزاوار ہوئے کتنی تکریم سے دفنائے گئے سوختہ تن کتنے اعزاز کے حامل یہ گنہگار ہوئے یوں بھی اس دور میں جینے کا کسے تھا یارا بے نوا بازوئے قاتل سے گلہ مند نہ ہوں زندگی یوں بھی تو مُفلس کی قبا تھی لیکن دلفگاروں کے کفن میں بھی تو پیوند نہ ہوں ناوک ظل الٰہی اجل آہنگ سہی شُکر کی جا ہے کہ سونے کی انی رکھتے ہیں جاں گنوائی بھی تو کیا مدفن و مرقد تو ملا .شاہ جم جاہ طبیعت تو غنی رکھتے ہیں