نور پیہم سفر میں رہتا ہے اس کا چہرا نظر میں رہتا ہے اس سے منزل کی عظمتیں پوچھو جو مسلسل سفر میں رہتا ہے پائے نازک سنبھال کر رکھنا دل تری رہگزر میں رہتا ہے مجھ میں خامی تلاشنے والے عیب تو ہر بشر میں رہتا ہے فائدہ کیا لہو جلانے سے جب اندھیرا ہی گھر میں رہتا ہے خیریت پوچھی شکریہ ورنہ کون کس کی خبر میں رہتا ہے کیا کروں لے کے اس حویلی کو میرا ماضی کھنڈر میں رہتا ہے وہ بلندی کو چھو نہیں سکتا جو اگر اور مگر میں رہتا ہے