وجود پر انحصار میں نے نہیں کیا تھا
کہ خاک کا اعتبار میں نے نہیں کیا تھا
سفید ریشم کی اوڑھنی میرے ہاتھ میں تھی
مگر اسے داغدار میں نے نہیں کیا تھا
یہ بے نیازی کی خو مرے حسن میں بہت تھی
مگر اسے بے قرار میں نے نہیں کیا تھا
ملا تھا خورجین میں لیے میرا کاسۂ سر
مگر اسے شرمسار میں نے نہیں کیا تھا
کہیں سے یک لخت زندگی میری کاٹ دے گا
جو راستہ اختیار میں نے نہیں کیا تھا
سموں تلے روند دے خوشی سے مگر یہ سن لے
گناہ اے شہسوار! میں نے نہیں کیا تھا
دکھائی دینے لگا وہ اک تیسرا کنارا
ابھی جوانی کو پار میں نے نہیں کیا تھا
غروب کا وقت تھا مقرر سو چل پڑا میں
کسی کا پھر انتظار میں نے نہیں کیا تھا
محمد اظہار الحق