وحشت زدوں کی کتنی دلچسپ ہیں ادائیں کچھ دیر خون روئیں کچھ دیر مسکرائیں حیران ہیں کدھر ہم بہر تلاش جائیں آتی ہیں ہر طرف سے ان کی ہی اب صدائیں گونجی ہوئیں ہیں میرے نالوں سے یہ فضائیں یا کالی کالی راتیں کرتی ہیں سائیں سائیں اس وقت خاص رہرو ہمت نہ ہار جائیں منزل قریب سمجھیں جب پاؤں ڈگمگائیں یہ دیکھنا ہے مجھ پر کیا بجلیاں گرائیں بدلی تو ہیں ہوائیں اٹھی تو ہیں گھٹائیں اف شرمگیں نگاہیں برباد کن ادائیں یہ نیمچے کسی کے دل میں نہ ڈوب جائیں اب ہچکیاں بنی ہیں رخ نزع میں بدل کر مایوس آرزوئیں ناکام التجائیں دل کی تباہیوں پر مسرور ہونے والے دل ہی نہ ہو تو تیرے جلوے کہاں سمائیں پہلے ہی سوچتے تم آہوں کا اب گلہ کیا جو بندھ گئیں ہوائیں وہ بندھ گئیں ہوائیں میں لفظ دوست سن کر ڈرتا ہوں دل ہی دل میں وہ مجھ سے ابرؔ کی ہیں احباب نے دغائیں
ابر احسنی گنوری