وعدے یخ بستہ کمروں کے اندر گرتے ہیں میرے صحن میں جھلسے ہوئے کبوتر گرتے ہیں کہتے ہیں ان شاخوں پر پھل پھول بھی آتے تھے اب تو پتے جھڑتے ہیں یا پتھر گرتے ہیں خوں کے یہ دھارے ہم نے پہلی بار نہیں دیکھے لیکن اب ان دریاؤں میں سمندر گرتے ہیں سن لیتے ہیں سرگوشی کو چپ میں ڈھلتے ہوئے چن لیتے ہیں تیر جو اپنے برابر گرتے ہیں ذکر ہمارا ہونے لگا اب ایسا مثالوں میں دریاؤں کے رخ پہ بنے گھر اکثر گرتے ہیں جانے کیسے زلزلے ان آنکھوں میں آن بسے پردہ اٹھنے لگتا ہے تو منظر گرتے ہیں