Iztirab

Iztirab

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے 
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے 
بندھا ہوا ہے بہاروں کا اب وہیں تانتا 
جہاں رکا تھا میں کانٹے نکالنے کے لئے 
کوئی نسیم کا نغمہ کوئی شمیم کا راگ 
فضا کو امن کے قالب میں ڈھالنے کے لئے 
خدا نہ کردہ زمیں پاؤں سے اگر کھسکی 
بڑھیں گے تند بگولے سنبھالنے کے لئے 
اتر پڑے ہیں کدھر سے یہ آندھیوں کے جلوس 
سمندروں سے جزیرے نکالنے کے لئے 
ترے سلیقۂ ترتیب نو کا کیا کہنا 
ہمیں تھے قریۂ دل سے نکالنے کے لئے 
کبھی ہماری ضرورت پڑے گی دنیا کو 
دلوں کی برف کو شعلوں میں ڈھالنے کے لئے 
یہ شعبدے ہی سہی کچھ فسوں گردوں کو بلاؤ 
نئی فضا میں ستارے اچھالنے کے لئے 
ہے صرف ہم کو ترے خال و خد کا اندازہ 
یہ آئنہ تو ہیں حیرت میں ڈالنے کے لئے 
نہ جانے کتنی مسافت سے آئے گا سورج 
نگار شب کا جنازہ نکالنے کے لئے 
میں پیش رو ہوں اسی خاک سے اگیں گے چراغ 
نگاہ و دل کے افق کو اجالنے کے لئے 
فصیل شب سے کوئی ہاتھ بڑھنے والا ہے 
فضا کی جیب سے سورج نکالنے کے لئے 
کنوئیں میں پھینک کے پچھتا رہا ہوں اے دانشؔ 
کمند تھی جو مناروں پر ڈالنے کے لئے 

احسان دانش

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *