Iztirab

Iztirab

وہ ابر جو مے خوار کی تربت پہ نہ برسے

وہ ابر جو مے خوار کی تربت پہ نہ برسے 
کہہ دو کہ خدارا کبھی گزرے نہ ادھر سے 
اتنا تو ہوا آہ شب غم کے اثر سے 
فطرت کا جگر پھوٹ بہا چشم سحر سے 
امید نے بھی یاس کے مردوں کو پکارا 
آئی کوئی آواز نہ دل سے نہ جگر سے 
ناصح کو بلاؤ مرا ایمان سنبھالے 
پھر دیکھ لیا اس نے اسی ایک نظر سے 
خورشید قیامت کی ادا دیکھ رہا ہوں 
ملتی ہوئی صورت ہے مرے داغ جگر سے 
ایک ایک قدم پر ہے جہاں خندۂ تقدیر 
تدبیر گزرتی ہے اسی راہ گزر سے 
اے خندۂ گلشن یہ ہے انجام شب عیش 
گل روتے ہیں نہ منہ ڈھانپ کے دامان سحر سے 
کچھ شان کریمی نے اس انداز سے تولا 
بھاری ہی رہا دیدۂ تر دامن تر سے 
خطرے میں ہیں کچھ دن سے حفیظؔ اہل دو عالم 
ہر شب مرے نالوں کی لڑائی ہے اثر سے 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *