وہ بچھڑ کر بھی کہاں مجھ سے جدا ہوتا ہے ریت پر اوس سے اک نام لکھا ہوتا ہے خاک آنکھوں سے لگائی تو یہ احساس ہوا اپنی مٹی سے ہر اک شخص جڑا ہوتا ہے ساری دنیا کا سفر خواب میں کر ڈالا ہے کوئی منظر ہو مرا دیکھا ہوا ہوتا ہے میں بھلانا بھی نہیں چاہتا اس کو لیکن مستقل زخم کا رہنا بھی برا ہوتا ہے خوف میں ڈوبے ہوئے شہر کی قسمت ہے یہی منتظر رہتا ہے ہر شخص کہ کیا ہوتا ہے