وہ خواب خواب فضائے طرب نہیں آئی عجیب ہی تھی وہ شب پھر وہ شب نہیں آئی جو جسم و جاں سے چلی جسم و جاں تلک پہنچی وہ موج گرمی رخسار و لب نہیں آئی تو پھر چراغ تھے ہم بے چراغ راتوں کے پلٹ کے گزری ہوئی رات جب نہیں آئی عجب تھے حرف کی لذت میں جلنے والے لوگ کہ خاک ہو گئے خوئے ادب نہیں آئی جو ابر بن کے برستی ہے روح ویراں پر بہت دنوں سے وہ آواز رب نہیں آئی صدا لگائیں اور اپنا مذاق اڑوائیں یہ اہل درد پہ افتاد کب نہیں آئی کیا ہے اپنے ہی قدموں نے پائمال بہت یہ ہم میں کج کلہی بے سبب نہیں آئی