Iztirab

Iztirab

وہ سر خوشی دے کہ زندگی کو شباب سے بہرہ یاب کر دے

وہ سر خوشی دے کہ زندگی کو شباب سے بہرہ یاب کر دے 
مرے خیالوں میں رنگ بھر دے مرے لہو کو شراب کر دے 
حقیقتیں آشکار کر دے صداقتیں بے حجاب کر دے 
ہر ایک ذرہ یہ کہہ رہا ہے کہ آ مجھے آفتاب کر دے 
یہ خواب کیا ہے یہ زشت کیا ہے جہاں کی اصلی سرشت کیا ہے 
بڑا مزا ہو تمام چہرے اگر کوئی بے نقاب کر دے 
کہو تو راز حیات کہہ دوں حقیقت کائنات کہہ دوں 
وہ بات کہہ دوں کہ پتھروں کے جگر کو بھی آب آب کر دے 
خلاف تقدیر کر رہا ہوں پھر ایک تقصیر کر رہا ہوں 
پھر ایک تدبیر کر رہا ہوں خدا اگر کامیاب کر دے 
ترے کرم کے معاملے کو ترے کرم ہی پہ چھوڑتا ہوں 
مری خطائیں شمار کر لے مری سزا کا حساب کر دے 
حفیظؔ سب سے بڑی خرابی ہے عشق میں لطف کامیابی 
کسی کی دنیا تباہ کر دے کسی کی عقبیٰ خراب کر دے 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *