Iztirab

Iztirab

وہ قافلہ آرام طلب ہو بھی تو کیا ہو

وہ قافلہ آرام طلب ہو بھی تو کیا ہو 
آواز نفس ہی جسے آواز درا ہو 
خاموش ہو کیوں درد محبت کے گواہو 
دعوے کو نباہو مرے نالو مری آہو 
ہر روز جو سمجھانے چلے آتے ہو ناصح 
میں پوچھتا ہوں تم مجھے سمجھے ہوئے کیا ہو 
اس دار بقا میں مری صورت کوئی دیکھے 
اک دم کا بھروسا ہے جو اک دم میں فنا ہو 
مجھ کو نہ سنا خضر و سکندر کے فسانے 
میرے لیے یکساں ہے فنا ہو کہ بقا ہو 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *