وہ کتاب حسن وہ علم و ادب کی طالبہ وہ مہذب وہ مودب وہ مقدس راہبہ کس قدر پیرایہ پرور اور کتنی سادہ کار کس قدر سنجیدہ و خاموش کتنی با وقار گیسوئے پر خم سواد دوش تک پہنچے ہوئے اور کچھ بکھرے ہوئے الجھے ہوئے سمٹے ہوئے رنگ میں اس کے عذاب خیرگی شامل نہیں کیف احساسات کی افسردگی شامل نہیں وہ مرے آتے ہی اس کی نکتہ پرور خاموشی جیسے کوئی حور بن جائے یکایک فلسفی مجھ پہ کیا خود اپنی فطرت پر بھی وہ کھلتی نہیں ایسی پر اسرار لڑکی میں نے دیکھی ہی نہیں دختران شہر کی ہوتی ہے جب محفل کہیں وہ تعارف کے لیے آگے کبھی بڑھتی نہیں