پاتا نہیں جو لذت آہ سحر کو میں پھر کیا کروں گا لے کے الٰہی اثر کو میں آشوب گاہ حشر مجھے کیوں عجیب ہو جب آج دیکھتا ہوں تری رہ گزر کو میں ایسا بھی ایک جلوہ تھا اس میں چھپا ہوا اس رخ پہ دیکھتا ہوں اب اپنی نظر کو میں جینا بھی آ گیا مجھے مرنا بھی آ گیا پہچاننے لگا ہوں تمہاری نظر کو میں وہ شوخیوں سے جلوہ دکھا کر تو چل دیے ان کی خبر کو جاؤں کہ اپنی خبر کو میں آہوں نے میری خرمن ہستی جلا دیا کیا منہ دکھاؤں گا تری برق نظر کو میں باقی نہیں جو لذت بیداری فنا پھر کیا کروں گا زندگی بے اثر کو میں اصغرؔ مجھے جنوں نہیں لیکن یہ حال ہے گھبرا رہا ہوں دیکھ کے دیوار و در کو میں
اصغر گونڈوی