پڑھ لے گا کوئی رات کی روئی ہوئی آنکھیں ہر سمت ہیں آرام سے سوئی ہوئی آنکھیں جن لوگوں کی منزل پہ نظر ہوتی ہے ہر دم ان کا ہی تماشا ہیں یہ کھوئی ہوئی آنکھیں دن بھر تو جمے رہتے ہیں پلکوں پہ وہی خواب کیوں ہوش میں لاتی نہیں دھوئی ہوئی آنکھیں آنکھوں کا جمال آپ کو معلوم ہی کیا ہے دیکھیں ہیں کبھی رات وہ سوئی ہوئی آنکھیں کچھ بھی نہ دکھا معجزہ تھا ہی یہی عامرؔ کھولی گئیں زمزم سے بھگوئی ہوئی آنکھیں دل ہے کہ تجھے پائیں بکھر جائیں اے مولا بینائی کے دھاگے میں پروئی ہوئی آنکھیں