پھر آشنائے لذت درد جگر ہیں ہم پھر محرم کشاکش ہر خیر و شر ہیں ہم ہر سانس دے رہی ہے خبر کائنات کی پھر بادۂ جمال سے یوں بے خبر ہیں ہم پھر عشق کی نظر میں ہے معشوقیت کا ناز پھر حسن دل نواز سے شیر و شکر ہیں ہم جینے کے اشتیاق سے ہے پھر رمیدگی پھر سینۂ حیات میں عزم سفر ہیں ہم ہشیار باش ظلمت غم خانۂ حیات پھر مرکز تجلی شمس و قمر ہیں ہم کس زعم میں ہے اے شب دیجور زندگی پھر رازدار نور طلوع سحر ہیں ہم ہے کس خیال خام میں اے خارزار دہر پھر کامران خندہ گل ہائے تر ہیں ہم پھر زندگی ہے غم کی امانت لیے ہوئے ہر دولت نشاط سے پھر بہرہ ور ہیں ہم پھر فیض عاشقی سے بہ ایں بے بضاعتی جیب جہاں میں دولت لعل و گہر ہیں ہم پھر باوجود فقر وہ حاصل ہے طمطراق تو یہ کہے کہ صاحب تاج و کمر ہیں ہم آنکھوں میں نور مصحف جاناں لیے ہوئے پھر کردگار عشق کے پیغام بر ہیں ہم کھلتے نہیں ہیں جوشؔ دماغوں پہ دل کے راز .بالاتر از رسائی نقد و نظر ہیں ہم
جوش ملیح آبادی