چشم رہنے لگی پر آب بہت شاید آوے گا خون ناب بہت دیر و کعبے میں اس کے خواہش مند ہوتے پھرتے ہیں ہم خراب بہت دل کے دل ہی میں رہ گئے ارمان کم رہا موسم شباب بہت مارنا عاشقوں کا گر ہے ثواب تو ہوا ہے تمہیں ثواب بہت کہیے بے پردہ کیونکے عاشق ہیں ہم کو لوگوں سے ہے حجاب بہت میرؔ بے خود ہیں اس جناب سے اب چاہیے سب کو اجتناب بہت