چلے تھے یار بڑے زعم میں ہوا کی طرح
پلٹ کے دیکھا تو بیٹھے ہیں نقش پا کی طرح
مجھے وفا کی طلب ہے مگر ہر اک سے نہیں
کوئی ملے مگر اس یار بے وفا کی طرح
مرے وجود کا صحرا ہے منتظر کب سے
کبھی تو آ جرس غنچہ کی صدا کی طرح
وہ اجنبی تھا تو کیوں مجھ سے پھیر کر آنکھیں
گزر گیا کسی دیرینہ آشنا کی طرح
کشاں کشاں لیے جاتی ہے جانب منزل
نفس کی ڈور بھی زنجیر بے صدا کی طرح
فرازکس کے ستم کا گلا کریں کس سے
.کہ بے نیاز ہوئی خلق بھی خدا کی طرح