چھوڑ جا ساتھ مگر میری دعا تو لے جا
اپنے رستے کے لئے میرا خدا تو لے جا
میں نے مانا کہ خطا کوئی نہیں تجھ سے ہوئی
اپنی ناکردہ خطاؤں کی سزا تو لے جا
زخم بھرنے میں تو اک عمر گزر جاتی ہے
خواب پل بھر میں سمیٹے ہیں پتہ تو لے جا
جس کے سائے تلے ہم خواب بنا کرتے تھے
اس یقیں ہی کی یہ صد چاک ردا تو لے جا
دونوں مل کر جنہیں گاتے تھے تو ان گیتوں سے
میری آواز نہ لے اپنی صدا تو لے جا
میرے حصے کا جو ہے درد اسے پی لوں گا
اپنے حصے کا سکوں اپنی وفا تو لے جا
اپنا رشتہ تھا فلک اور زمیں کا رشتہ
زاہدؔ اس میں ہے جو پھیلا وہ خلا تو لے جا
زاہد ابرول