کسی طرح تو اسے مار دوں جو باہر ہے وہ شخص کیسے مرے گا جو میرے اندر ہے سکھا دیا مجھے آداب گفتگو تو نے مرے لئے تو ترا حسن ہی گرامر ہے اب اس کے سامنے سچ بولنے نہ لگ جانا وہ میرے بارے میں پوچھے تو کہنا بہتر ہے لو اب تو بیٹھے بٹھائے ہی دید ہوتی ہے وبا کا دور ہے سو آج کل وہ گھر پر ہے اب ایسے میں مرے دل سے دعا ہی نکلے گی وہ سرخ جوڑے میں جو آج بن سنور کر ہے پھر اشک ہو گئے بے مول جب یہ اس نے کہا نکال دوں میں تری آنکھ میں جو کنکر ہے ہر ایک راہ سے گزرا ہوں بے نیازانہ عطاؔ غرض کا پجاری نہیں قلندر ہے