کسی غریب کی برسوں کی آرزو ہو جاؤں
میں اس سرنگ سے نکلوں تو آب جو ہو جاؤں
بڑا حسین تقدس ہے اس کے چہرے پر
میں اس کی آنکھوں میں جھانکوں تو با وضو ہو جاؤں
مجھے پتہ تو چلے مجھ میں عیب ہیں کیا کیا
وہ آئنہ ہے تو میں اس کے روبرو ہو جاؤں
کسی طرح بھی یہ ویرانیاں ہوں ختم مری
شراب خانے کے اندر کی ہاؤ ہو جاؤں
مری ہتھیلی پہ ہونٹوں سے ایسی مہر لگا
کہ عمر بھر کے لئے میں بھی سرخ رو ہو جاؤں
کمی ذرا سی بھی مجھ میں نہ کوئی رہ جائے
اگر میں زخم کی صورت ہوں تو رفو ہو جاؤں
نئے مزاج کے شہروں میں جی نہیں لگتا
پرانے وقتوں کا پھر سے میں لکھنؤ ہو جاؤں
منور رانا