Iztirab

Iztirab

کسی کے روبرو بیٹھا رہا میں بے زباں ہو کر

کسی کے روبرو بیٹھا رہا میں بے زباں ہو کر 
مری آنکھوں سے حسرت پھوٹ نکلی داستاں ہو کر 
خدا حافظ کسی کے راز الفت کا خدا حافظ 
خیال آتے ہی اب تو دل دھڑکتا ہے فغاں ہو کر 
پیا آب بقا اے خضر اب تاثیر بھی دیکھو 
قیامت تک رہو پابند عمر جاوداں ہو کر 
یکایک وہ مریض غم کی صورت کا بدل جانا 
وہ رو دینا کسی نا مہرباں کا مہرباں ہو کر 
کتاب دہر کا دلچسپ ٹکڑا ہے مری ہستی 
مجھے دیکھو کہ بیٹھا ہوں مجسم داستاں ہو کر 
سنا ہے اس طرف سے بھی جناب عشق گزریں گے 
مری ہستی نہ اڑ جائے غبار کارواں ہو کر 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *