کل رات وہ تھکا ہوا چپ چپ اداس اداس سنتا رہا سڑک سے گزرتی بسوں کا شور پیپل کا پتا ٹوٹ کے دیوار ڈھا گیا آنتوں کا درد نیند کی پریوں کو کھا گیا جھنجھلا کے اس نے چاندی کا دیپک بجھا دیا آکاش کو سمیٹ کے نیچے گرا دیا پھیلی ہوئی زمیں کو دھوئیں سا اڑا دیا پھر کچھ نہیں نہ کھیت، نہ میداں، نہ راستے بس اک نگاہ کھڑکی کی رنگ جالیاں (بس تین چار آنے کی دو چار گولیاں)