Iztirab

Iztirab

کل ضرور آؤ گے لیکن آج کیا کروں

کل ضرور آؤ گے لیکن آج کیا کروں 
بڑھ رہا ہے قلب کا اختلاج کیا کروں 
کیا کروں کوئی نہیں احتیاج دوست کو 
اور مجھ کو دوست کی احتیاج کیا کروں 
اب وہ فکر مند ہیں کہہ دیا طبیب نے 
عشق ہے جنوں نہیں میں علاج کیا کروں 
غیرت رقیب کا شکوہ کر رہے ہو تم 
اس معاملے میں سخت ہے مزاج کیا کروں 
ماسوائے عاشقی اور کچھ کیا بھی ہو 
سوجھتا ہی کچھ نہیں کام کاج کیا کروں 
محو کار دیں ہوں میں بوریا نشیں ہوں میں 
راہزن نہیں ہوں میں تخت و تاج کیا کروں 
زور اور زر بغیر عشق کیا کروں حفیظؔ 
چل گیا ہے ملک میں یہ رواج کیا کروں 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *