Iztirab

Iztirab

کمبخت دل برا ہو تری آہ آہ کا

کمبخت دل برا ہو تری آہ آہ کا 
حسن نگاہ بھی نہ رہا گاہ گاہ کا 
چھیڑو نہ میٹھی نیند میں اے منکر و نکیر 
سونے دو بھائی میں تھکا ماندہ ہوں راہ کا 
میرے مقلدوں کو مری راہ شوق میں 
ہر گام پر نشان ملا سجدہ گاہ کا 
دل سا گواہ حشر میں آ کر پھسل گیا 
اب رحم پر معاملہ ہے داد خواہ کا 
کس منہ سے کہہ رہے ہو ہمیں کچھ غرض نہیں 
کس منہ سے تم نے وعدہ کیا تھا نباہ کا 
دل لینے والی بات اسی دل سے پوچھیے 
مالک یہی ہے میرے سفید و سیاہ کا 
پیش خدا چلو تو مزہ جب ہے اے حفیظؔ 
نعرہ ہو لب پہ اشہد ان لا الہ کا 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *