Iztirab

Iztirab

کوئی دوا نہ دے سکے مشورۂ دعا دیا

کوئی دوا نہ دے سکے مشورۂ دعا دیا 
چارہ گروں نے اور بھی درد دل کا بڑھا دیا 
دونوں کو دے کے صورتیں ساتھ ہی آئنہ دیا 
عشق بسورنے لگا حسن نے مسکرا دیا 
ذوق نگاہ کے سوا شوق گناہ کے سوا 
مجھ کو بتوں سے کیا ملا مجھ کو خدا نے کیا دیا 
تھی نہ خزاں کی روک تھام دامن اختیار میں 
ہم نے بھری بہار میں اپنا چمن لٹا دیا 
حسن نظر کی آبرو صنعت برہمن سے ہے 
جس کو صنم بنا لیا اس کو خدا بنا دیا 
داغ ہے مجھ پہ عشق کا میرا گناہ بھی تو دیکھ 
اس کی نگاہ بھی تو دیکھ جس نے یہ گل کھلا دیا 
عشق کی مملکت میں ہے شورش عقل نامراد 
ابھرا کہیں جو یہ فساد دل نے وہیں دبا دیا 
نقش وفا تو میں ہی تھا اب مجھے ڈھونڈتے ہو کیا 
حرف غلط نظر پڑا تم نے مجھے مٹا دیا 
خبث دروں دکھا دیا ہر دہن غلیظ نے 
کچھ نہ کہا حفیظؔ نے ہنس دیا مسکرا دیا 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *