Iztirab

Iztirab

کچھ اشارے تھے جنہیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم

کچھ اشارے تھے جنہیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم 
اس نگاہ آشنا کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم 
رفتہ رفتہ غیر اپنی ہی نظر میں ہو گئے 
واہ ری غفلت تجھے اپنا سمجھ بیٹھے تھے ہم 
ہوش کی توفیق بھی کب اہل دل کو ہو سکی 
عشق میں اپنے کو دیوانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم 
پردۂ آزردگی میں تھی وہ جان التفات 
جس ادا کو رنجش بے جا سمجھ بیٹھے تھے ہم 
کیا کہیں الفت میں راز بے حسی کیوں کر کھلا 
ہر نظر کو تیری درد افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم 
بے نیازی کو تری پایا سراسر سوز و درد 
تجھ کو اک دنیا سے بیگانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم 
انقلاب پے بہ پے ہر گردش و ہر دور میں 
اس زمین و آسماں کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم 
بھول بیٹھی وہ نگاہ ناز عہد دوستی 
اس کو بھی اپنی طبیعت کا سمجھ بیٹھے تھے ہم 
صاف الگ ہم کو جنون عاشقی نے کر دیا 
خود کو تیرے درد کا پردا سمجھ بیٹھے تھے ہم 
کان بجتے ہیں محبت کے سکوت ناز کو 
داستاں کا ختم ہو جانا سمجھ بیٹھے تھے ہم 
باتوں باتوں میں پیام مرگ بھی آ ہی گیا 
ان نگاہوں کو حیات افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم 
اب نہیں تاب سپاس حسن اس دل کو جسے 
بے قرار شکوۂ بیجا سمجھ بیٹھے تھے ہم 
ایک دنیا درد کی تصویر نکلی عشق کو 
کوہکن اور قیس کا قصہ سمجھ بیٹھے تھے ہم 
رفتہ رفتہ عشق مانوس جہاں ہوتا چلا 
خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم 
حسن کو اک حسن ہی سمجھے نہیں اور اے فراقؔ 
مہرباں نا مہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم 

فراق گورکھپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *