Iztirab

Iztirab

کچھ غنچہ لبوں کی یاد آئی کچھ گل بدنوں کی یاد آئی

کچھ غنچہ لبوں کی یاد آئی کچھ گل بدنوں کی یاد آئی 
جو آنکھ جھپکتے بیت گئیں ان انجمنوں کی یاد آئی 
مجروح گلوں کے دامن میں پیوند لگے ہیں خوشبو کے 
دیکھا جو بہاروں کا یہ چلن سنسان بنوں کی یاد آئی 
تھی ہوش و خرد سے کس کو غرض ارباب جنوں کے حلقے میں 
جب فصل بہاراں چیخ اٹھی تب پیرہنوں کی یاد آئی 
کیا کم ہے کرم یہ اپنوں کا پہچاننے والا کوئی نہیں 
جو دیس میں بھی پردیسی ہیں ان ہم وطنوں کی یاد آئی 
شیریں کی اداؤں پر مائل پرویز کی سطوت سے خائف 
جو بن نہ سکے فرہاد کبھی ان تیشہ زنوں کی یاد آئی 
چھایا ہے قتیلؔ اکثر دل پر نادیدہ نظاروں کا جادو 
ہم بادیہ پیما تھے لیکن پھر بھی چمنوں کی یاد آئی 

قتیل شفائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *