کچھ غنچہ لبوں کی یاد آئی کچھ گل بدنوں کی یاد آئی جو آنکھ جھپکتے بیت گئیں ان انجمنوں کی یاد آئی مجروح گلوں کے دامن میں پیوند لگے ہیں خوشبو کے دیکھا جو بہاروں کا یہ چلن سنسان بنوں کی یاد آئی تھی ہوش و خرد سے کس کو غرض ارباب جنوں کے حلقے میں جب فصل بہاراں چیخ اٹھی تب پیرہنوں کی یاد آئی کیا کم ہے کرم یہ اپنوں کا پہچاننے والا کوئی نہیں جو دیس میں بھی پردیسی ہیں ان ہم وطنوں کی یاد آئی شیریں کی اداؤں پر مائل پرویز کی سطوت سے خائف جو بن نہ سکے فرہاد کبھی ان تیشہ زنوں کی یاد آئی چھایا ہے قتیلؔ اکثر دل پر نادیدہ نظاروں کا جادو ہم بادیہ پیما تھے لیکن پھر بھی چمنوں کی یاد آئی
قتیل شفائی