Iztirab

Iztirab

کچھ نہ کچھ عشق کی تاثیر کا اقرار تو ہے

کچھ نہ کچھ عشق کی تاثیر کا اقرار تو ہے 
اس کا الزام تغافل پہ کچھ انکار تو ہے 
ہر فریب غم دنیا سے خبردار تو ہے 
تیرا دیوانہ کسی کام میں ہشیار تو ہے 
دیکھ لیتے ہیں سبھی کچھ ترے مشتاق جمال 
خیر دیدار نہ ہو حسرت دیدار تو ہے 
معرکے سر ہوں اسی برق نظر سے اے حسن 
یہ چمکتی ہوئی چلتی ہوئی تلوار تو ہے 
سر پٹکنے کو پٹکتا ہے مگر رک رک کر 
تیرے وحشی کو خیال در و دیوار تو ہے 
عشق کا شکوۂ بے جا بھی نہ بے کار گیا 
نہ سہی جور مگر جور کا اقرار تو ہے 
تجھ سے ہمت تو پڑی عشق کو کچھ کہنے کی 
خیر شکوہ نہ سہی شکر کا اظہار تو ہے 
اس میں بھی رابطۂ خاص کی ملتی ہے جھلک
خیر اقرار محبت نہ ہو انکار تو ہے 
کیوں جھپک جاتی ہے رہ رہ کے تری برق نگاہ 
یہ جھجک کس لئے اک کشتۂ دیدار تو ہے 
کئی عنوان ہیں ممنون کرم کرنے کے 
عشق میں کچھ نہ سہی زندگی بیکار تو ہے 
سحر و شام سر انجمن ناز نہ ہو 
جلوۂ حسن تو ہے عشق سیہ کار تو ہے 
چونک اٹھتے ہیں فراقؔ آتے ہی اس شوخ کا نام 
کچھ سراسیمگیٔ عشق کا اقرار تو ہے 

فراق گورکھپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *