کچھ نہ کچھ عشق کی تاثیر کا اقرار تو ہے اس کا الزام تغافل پہ کچھ انکار تو ہے ہر فریب غم دنیا سے خبردار تو ہے تیرا دیوانہ کسی کام میں ہشیار تو ہے دیکھ لیتے ہیں سبھی کچھ ترے مشتاق جمال خیر دیدار نہ ہو حسرت دیدار تو ہے معرکے سر ہوں اسی برق نظر سے اے حسن یہ چمکتی ہوئی چلتی ہوئی تلوار تو ہے سر پٹکنے کو پٹکتا ہے مگر رک رک کر تیرے وحشی کو خیال در و دیوار تو ہے عشق کا شکوۂ بے جا بھی نہ بے کار گیا نہ سہی جور مگر جور کا اقرار تو ہے تجھ سے ہمت تو پڑی عشق کو کچھ کہنے کی خیر شکوہ نہ سہی شکر کا اظہار تو ہے اس میں بھی رابطۂ خاص کی ملتی ہے جھلک خیر اقرار محبت نہ ہو انکار تو ہے کیوں جھپک جاتی ہے رہ رہ کے تری برق نگاہ یہ جھجک کس لئے اک کشتۂ دیدار تو ہے کئی عنوان ہیں ممنون کرم کرنے کے عشق میں کچھ نہ سہی زندگی بیکار تو ہے سحر و شام سر انجمن ناز نہ ہو جلوۂ حسن تو ہے عشق سیہ کار تو ہے چونک اٹھتے ہیں فراقؔ آتے ہی اس شوخ کا نام کچھ سراسیمگیٔ عشق کا اقرار تو ہے
فراق گورکھپوری