کھینچتا ہے دلوں کو صحرا کچھ
ہے مزاجوں میں اپنے سودا کچھ
دل نہیں جمع چشم تر سے اب
پھیلتا سا چلا یہ دریا کچھ
شہر میں حشر کیوں نہ برپا ہو
شور ہے میرے سر میں کیسا کچھ
خلق کی کیا سمجھ میں وہ آیا
آپ سے تو گیا نہ سمجھا کچھ
ویسے ظاہر کا لطف ہے چھپنا
کم تماشا نہیں یہ پردہ کچھ
یاس سے مجھ کو بھی ہو استغنا
گو نہ ہو اس کو میری پروا کچھ
کچھ نہ دیکھا تھا ہم نے پر تو بھی
آنکھ میں آئی ہی نہ دنیا کچھ
کچھ کہو دور ہے بہت وہ شوخ
اپنے نزدیک تو نہ ٹھہرا کچھ
اب تو بگڑے ہی جاتے ہیں خوباں
رنگ صحبت نہیں ہے اچھا کچھ
وصل اس کا خدا نصیب کرے
میرؔ دل چاہتا ہے کیا کیا کچھ
میر تقی میر