کہانیوں نے ذرا کھینچ کر بدن اپنے
حرم سرا سے بلایا ہمیں وطن اپنے
کھلے گلے کی قمیصیں کھلے گلے کے فراق
یہ لڑکیاں ہیں بدلتی ہیں پیرہن اپنے
غدر کے پھول سجاتی ہیں ایسے بالوں میں
سنبھال سکتی ہوں جیسے بھرے بدن اپنے
عجب بھڑک ہے شرابوں کی اور آنکھوں کی
بلا ہے حسن بدکنے لگے ہیں بن اپنے
پرائے درد کی ٹھکری سے گھر کریں روشن
کہ سفلگی کی ریاضت میں ہیں مگن اپنے
یہ انکسار کے پتلے یہ سیم و زر کی ثنا
یہ مسخرے ہیں کہ چولے میں گورکن اپنے
ہمیں نکالو گھروں کی کمین گاہوں سے
لہو کے رم سے دہکنے لگے ختن اپنے
ہم احتیاج کے حجروں سے رزق چنتے ہوئے
زمیں کے خوان پہ رکھنے لگے لگن اپنے
یہ آرزوؤں کے چقماق سے جلے سینے
جو آتشیں ہیں مگر نوچتے ہیں تن اپنے
یہاں زمین پہ بلوے یہاں زمیں پہ فساد
نکال رکھتے ہیں صندوق سے کفن اپنے
وہ باس دور کے خطوں کی عورتوں میں اڑی
جسے جہازوں میں لائے تھے ہم سخن اپنے
عامر سہیل