کہتا نہیں ہوں لوگو میں کر کے دکھاؤں گا پھر سے جنوں چراغ ہوائیں جلاؤں گا آنکھوں نے نیند رخ نہ کیا جانتا تھا میں تجھ خواب تک رسائی کبھی میں نہ پاؤں گا سورج ستم نشانہ بنا ہوں اسی لیے چاہا تھا دھوپ قہر سے تجھ کو بچاؤں گا تنہا سفر پہ مجھ کو روانہ تو کر دیا سوچا نہیں کہ تجھ کو بہت یاد آؤں گا سچ سن نہیں سکے گا کوئی ورنہ جی میں تھا دنیا کو جیسا دیکھا ہے سب کو بتاؤں گا بیتے دنوں کے ننھے پرندوں کے سائے میں جینے کا لطف اور بھی کچھ دن اٹھاؤں گا
شہریار