Skip to content
کہتے ہیں جس کو ذات وہ گویا کہیں نہیں
دنیا میں دیکھ آئے، یہ در وا کہیں نہیں
صحرا پہ میں نے آج یہ نکتہ رقم کیا
دریا کا علم جز تہ دریا کہیں نہیں
پائے سفر شکستہ ہوئے مدتیں ہوئیں
میں راستے میں ہوں ابھی پہنچا کہیں نہیں
دے مال ہم کو مفت ہم اصحاب کہف ہیں
سکہ ہمارے دور کا چلتا کہیں نہیں