پیربخش بلڈنگ سے پیربخش کے مرقد تک
اپنی ہی بخشش کی دعاؤں کے کرب زار سے گزر کر آنے والی
سر پر گزشتہ ماہ و سال کے کتنے ہی تھال اٹھائے
آج بھی ایک قبر گم گشتہ کا نشاں اور اپنے معدوم کل کے لیے خطۂ اماں
ایک ساتھ ڈھونڈ رہی ہے
اس کے ننگے تلووں سے چھونے والی تپش کی لہر لہر اسے اپنے
کھلونوں سے محروم بچپن کے ساتھ ساتھ وہ بہاریں بھی یاد دلا جاتی ہے
جب کسی ان دیکھے جھونکے سے مہک اٹھنے کی خواہش میں اس کے سپنے
پس دیوار مرجھا گئے اور اس کے بال چنبیلی کے پھول بنتے گئے
اور پھر اس کی کلائیوں میں پہنی ہوئی جھریوں میں طلائی چوڑیوں
کے عکس جھلملانے لگے
ابھی ابھی ایک بے ترتیب ساہوکار اپنے بکھرے ہوئے نوٹوں
کو ترتیب دینے کا جاں گسل فریضہ سرانجام دیتے دیتے تھک گیا
مائی مریم نے پہلے تو نوٹوں میں مقید ضرورتوں سے ملاقات
کی ایک اور کوشش کی
اور پھر ایک نظر آسمان پر ڈالی جیسے وہاں بھی کوئی رہتا ہو
اس کی آنکھوں سے نکلنے کے لیے بے تاب حسرتوں میں سے
کچھ تو ان گولیوں کو بھی بھگو گئیں
جنہیں اپنے لرزتے ہاتھوں میں لیتے ہی اسے یقین ہو چلا تھا
کہ آج رات اسے کوئی درد نہیں ستائے گا
اور صبح کو کھانسی کا دورہ بھی نہیں پڑے گا
مگر کہاں۔۔۔
بیماریاں بھی آج کل اپنے مزاج میں بہت بے نیاز ہو گئی ہیں
غلام محمد قاصر