کہیں لوگ تنہا کہیں گھر اکیلے کہاں تک میں دیکھوں یہ منظر اکیلے گلی میں ہواؤں کی سرگوشیاں ہیں گھروں میں مگر سب صنوبر اکیلے نمائش ہزاروں نگاہوں نے دیکھی مگر پھول پہلے سے بڑھ کر اکیلے اب اک تیر بھی ہو لیا ساتھ ورنہ پرندہ چلا تھا سفر پر اکیلے جو دیکھو تو اک لہر میں جا رہے ہیں جو سوچو تو سارے شناور اکیلے تری یاد کی برف باری کا موسم سلگتا رہا دل کے اندر اکیلے ارادہ تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر گزرتا نہیں اک دسمبر اکیلے زمانے سے قاصرؔ خفا تو نہیں ہیں کہ دیکھے گئے ہیں وہ اکثر اکیلے