کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق حق شناسوں کے ہاں خدا ہے عشق اور تدبیر کو نہیں کچھ دخل عشق کے درد کی دوا ہے عشق دل لگا ہو تو جی جہاں سے اٹھا موت کا نام پیار کا ہے عشق کیا ڈبایا محیط میں غم کے ہم نے جانا تھا آشنا ہے عشق کوہ کن کیا پہاڑ کاٹے گا پردے میں زور آزما ہے عشق عشق سے جا نہیں کوئی خالی دل سے لے عرش تک بھرا ہے عشق عشق ہے عشق کرنے والوں کو کیسا کیسا بہم کیا ہے عشق کون مقصد کو عشق بن پہنچا آرزو عشق مدعا ہے عشق میرؔ مرنا پڑے ہے خوباں پر عشق مت کر کہ بد بلا ہے عشق